اللہ سے گناہ معاف کروائیں۔۔۔ لیکن کیسے؟؟ قرآن کی روشنی میں درگزر اور معافی کی حکمت

دل

اگر آپ چاہتے ہیں کہ اللہ کریم آپ کے گناہوں کو معاف کردیں۔ آپ کی غلطیوں پر درگزر کریں۔

آپ سے جتنی بھی کوتاہیاں ہوئی، لغزشیں ہوئی بس اللہ کریم معاف کردیں تو اگر یہ ایک کام کر لیتے ہیں جس کا ذکر قرآن میں ہے تو ضرور اللہ کریم آپ کی غلطیوں کو معاف کر دیں گے، ان شاءاللہ۔

“تم میں جو وسعت والے ہیں وہ قرابت داروں، مساکین اور مہاجرین پر اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے کی قسم کھائیں، انھیں معاف کردیں، درگزر کریں،
کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہاری غلطیوں کو معاف کردے۔”(22:24)

یہ آیت تب نازل ہوئی جب ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی تو تہمت لگانے والوں میں مسطح بھی شریک تھے۔
اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی مسطح کے اخراجات اٹھاتے تھے۔ جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مسطح کے عائشہ پر تہمت والے واقعے میں شرکت کا علم ہوا تو انھیں بہت تکلیف پہنچی۔
تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خرچ نہ کرنے اخراجات نہ اُٹھانے کی قسم کھائی۔ تب یہ آیت نازل ہوئی اللہ کا قول۔۔۔

یہ آیت سن کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: “کیوں نہیں، میں تو یہی چاہتا ہوں کہ اللہ میری لغزشیں معاف فرمائے۔”
پھر حضرت صدیق اکبر مسطح کا خرچہ پہلے کی طرح دینے لگے اور معاف کردیا۔

 

اگر آپ بھی چاہتے ہیں کہ اللہ کریم آپ کی غلطیوں کو معاف کردے تو آپ بھی دینے والے بن جائیں۔ اگر آپ وسعت والے ہیں۔ مالدار ہیں۔ لوگوں پر خرچ کرتے ہیں، اگر کوئی آپ کے ساتھ برا رویہ رکھیں۔۔۔ تو آپ نے بھی یہی کرنا ہے کہ ان لوگوں کو معاف کردیں۔ درگزر کریں۔ اللہ کریم آپ کو بھی معاف کردے گا۔
کیوں کہ ہم بھی تو یہی پسند کرتے ہیں نا کہ
اللہ کریم ہمیں معاف کردے تو جو چیز ہم اپنے لیے پسند کرتے ہیں تو وہ دوسروں کے لیے بھی وہی پسند کرنا چاہیے جو اپنے لیے کرتے ہیں۔ تاکہ ہمیں بھی اللہ کریم معاف کردے۔ درگزر کریں۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس کے ساتھ آپ احسان کرتے ہیں تو وہ بھی بدلے میں آپ کے ساتھ احسان نہیں کرے گا۔۔۔
بلکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ آپ سے برا رویہ رکھے اتنا برا کہ آپ کا دل ٹوٹ جائیں۔ یا آپ کے گھرانے کے کسی فرد کے لیے نازیبا الفاظ الفاظ کہے۔۔
لیکن ان سب کے باوجود آپ نے جیسے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اللہ کے قول کی وجہ سے عمل اختیار کیا آپ نے بھی وہی کرنا ہے۔ دینا ہے معاف کرنا ہے۔۔ درگزر سے کام لینا ہے تاکہ اللہ کریم ہمیں معاف کر دے۔

 

ڈپریشن

 

بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کا اپنا قریبی بھائی ہی آپ سے بدظن ہو جاتا ہے جبکہ آپ اس کے ساتھ احسان کرتے ہیں۔ اس پر اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرتے ہیں لیکن وہ آپ کا ایک طریقے سے دشمن بن جاتا ہے۔
آپ اس پر خرچ کرتے ہیں مگر وہ آپ کا لحاظ نہیں کرتا تو آپ بدلے میں پھر اسے دینا بند کر دیتے ہیں۔ لیکن اگر آپ درگزر کرکے خرچ کرتے ہیں تو یقیناً اللہ بھی آپ سے درگزر کرے گا۔

اگر آپ معاف کر دیتے ہیں تو آپ کا دین و ایمان اور عزت دل سب محفوظ رہیں گے۔
اور ان سب سے بڑھ کر معاف کر دینے سے آپ سکون میں آجاتے ہیں۔ آپ کا اپنا فایدہ ہوتا ہے۔
لیکن اگر آپ معاف نہیں کرتے اور انتقام لینے، بدلہ لینے کا سوچتے ہیں تو سب سے پہلے نقصان آپ کو خود ہوگا۔ آپ کے اعصاب، خون، نیند و راحت اور عزت پر سب پر اثر ہوگا دوسروں سے پہلے خود نقصان پہنچے گا۔

قریش مکہ نے آپ کو کتنی اذیتیں دی، شہر بدر کیا اور لڑائیاں لڑی ان سب کے باوجود فتح مکہ کے دن مجمع عام کے سامنے آپ نے اپنے جانی دشمنوں سے فرمایا: “جاؤ تم سب آزاد ہو”
قرآن مجید میں بھی یہی فرمایا:”جو لوگ اپنا غصہ پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان نیکو کاروں سے محبت کرتا ہے۔(134:3)

 

مجھے خود کو بدلنا ہے

پیارے لوگو!
معاف کردیا کرو! معاف کرنے سے خوشیاں ملتی ہیں۔ برائی کا جواب احسن طریقے سے نرمی سے دو کہ سامنے والا اگر دشمن بھی ہوا تو وہ دوست بن جاتا ہے۔
لیکن اگر آپ سے کوئی زیادتی کرے جنکی آپ مدد کرتے تھے تب بھی آپ نے درگزر کرنا ہے۔ معاف کرکے دیتے رہنا ہے اس امید پر کہ اللہ ہی مجھے اجر دے گا اور معاف کردے گا۔ تو یقین کیجئے کہ یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔
یہ تو بہت قیمتی سودا ہے کہ جس کا قرآن میں ذکر آیا ہے۔ اور اللہ کا وعدہ سچا ہے جو پورا ہو کر ہی رہتا ہے۔ اور آپ بھی سکون سے اپنی منزل مقصود کی جانب قدم بڑھاتے جاتے ہیں۔

لیکن اگر آپ معاف نہیں کرتے تو اس کی مثال ایسے ہے جیسے آپ کسی باغ میں سے گزرتے ہیں اپنا دامن نہیں بچاتے تو وہی کانٹوں سے الجھ کر رہ جاتے ہیں اور پھر آپ منزل مقصود کی طرف بھی قدم نہیں بڑھا سکیں گے۔
خیر کے کام سے رک جائیں گے۔ آپ کا دن برا گزرے گا۔
لیکن اگر آپ اپنا دامن کانٹوں سے بچا بچا کر چلتے ہیں تو آپ منزل کو پا لیتے ہیں۔

ٹھیک اسی طرح اگر کوئی آپ سے الجھنے کی کوشش کریں تو آپ نے اپنا دامن بچانا ہے اور منزل کی جانب بڑھتے رہنا ہے۔ لوگوں کو معاف کرکے۔۔۔
تو یقین کیجئے؛
آپ منزل کو مقصود کو بھی پالیں گے اور ساتھ ہی اجر و ثواب کے مستحق بھی ضرور بنیں گے۔ سب سے بڑھ کر وسعت کی وجہ سے دینے پر اللہ کریم آپ کی لغزشوں کو معاف بھی کردیں گے، ان شاءاللہ۔

مریم حسن

 

دل

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس

Advertisment

مشہور پوسٹ