ڈپریشن سے سکون کی طرف سفر
پہلا حصہ
آپ بے چین ہیں۔ آپ ذہنی دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں۔ آپ کی روح بے قرار ہیں۔ آپ کی روح پر زخم اتنے گہرے کہ آپ کی روح اذیت میں مبتلا ہو جائیں۔ تڑپتی و بلکتی اور بے قرار سی جسے کہیں اک پل سکوں میسر نہ ہورہا ہو۔ آپ پریشان ہیں۔ اداسی، افسردگی اور ناامیدی کا شکار ہو کرآپ اپنے اوپر سے اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔
آپ بے بس سے ہوجائیں۔ چڑچڑاپن، غصہ، اور افسردگی کی کیفیت پیدا ہو جائیں۔ لوگوں سے ملنے کو بالکل دل نہ کرے۔ اکیلا رہنے اور تنہائی میں بیٹھ کر خوب رونے کا شدت سے دل کرے۔ سب کے ساتھ رہ کر بھی ساتھ نہ ہونے والا معاملہ ہو۔ سکون ڈھونڈنے پر بھی میسر نہ ہو اور خوشی سے ناآشنا ہو جائیں
آپ کی اداس اور افسردہ روح سکون اور خوشی کی تلاش میں باہر بھٹکنا شروع ہوجائیں۔ جب آپ بظاہر تو ہنستے مسکراتے نظر آتے ہیں مگر دل گویا اندر سے بالکل خالی ہوگیا ہو۔ آپ بڑے متحرک اور اتنے فعال و قابل ہو کر بھی اداسی جیسے موذی مرض نے آپ کو بے بس کر دیا ہو۔
آپ جب اتنے مضبوط و بہادر ہو کر اس کیفیت میں مبتلا ہو جائیں جس کا انداذہ کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ آپ جس کیفیت سے گزر رہے ہیں اس سے سوائے اللہ کے اور کوئی واقف نہیں۔۔۔
اتنی نعمتیں، عزیز پیارے رشتے پاس ہونے کے باوجود آپ خوف کا شکار ہونے لگے۔
آپ کے ذہن میں یہ سوالات بار بار منڈلانے لگے کہ کس طرح اس سے بچ سکتے ہیں۔۔۔دوسروں کی طرح خوشگوار زندگی کیسے گزار سکتے؟ باقی لوگ تو پرسکون خوش نظر آتے ہیں لیکن!
ہمارے چہرے سے وہ سکون کہاں غائب ہوگیا ہے؟؟ دل بے قرار۔۔۔۔ اسے سکون کیوں میسر نہیں؟؟؟ وہ خوشی و طمانیت جو اوروں کے چہروں سے چھلکتی ہیں وہ ہمارے چہرے پر کیوں نہیں؟؟؟
ایسا صرف میرے ساتھ ہی کیوں؟؟؟
ایسا صرف آپ کے ساتھ نہیں
بلکہ یہ ہر انسان کے ساتھ لازم و ملزوم بیں۔ ایک آپ نہیں ان کیفیات سے دوچار ہورہے بلکہہر انسان خوشی و غمی اور مختلف قسم کی آزمائشوں میں سے گزرتا ہے، کسی کو دیکر آزمایا جاتا ہے تو کسی سے لیکر۔۔۔!!!
اللہ نے قرآن مجید میں خود فرمایا کہ
وَلَـنَبۡلُوَنَّكُمۡ بِشَىۡءٍ مِّنَ الۡخَـوۡفِ وَالۡجُـوۡعِ وَنَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَالۡاَنۡفُسِ وَالثَّمَرٰتِؕ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيۡنَۙ ۞
اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے اور (کبھی) بھوک سے (کبھی) مال و جان اور پھلوں میں کمی کر کے اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں ان کو خوشخبری سنا دو۔
مومنوں کو ضرور خوف ان کی جان، مال و اولاد وغیرہ سے آزمایا جائے گا۔
اب کوئی آسانی کے مراحل سے گزر رہا ہوگا تو عین اسی لمحے کوئی دوسرا کسی آزمائش میں مبتلا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کسی انسان پر اس کی طاقت سے زیادہ مشقت میں نہیں ڈالتے۔ آپ جس آزمائش کو یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ اس سے زیادہ کسی دوسرے پر اس طرح کی نہیں آئی جبکہ دوسرا جو برداشت کر رہا ہے اگر وہ آپ پر آتی تو آپ اسے برداشت کرنے کے متحمل ہی نہ ہوتے۔ لیکن ہم ان سب پر صبر و تحمل کرلیں۔ اللہ سے عافیت طلب کرے۔
کیوں کہ اس دوران انسان کا عمل جانچا جاتا ہے کہ آیا وہ اس کیفیت میں رب کی رضا سمجھ کر فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتا ہے یا پھر نافرمانی کی حدوں کو کراس کرتا جارہا ہوتا ہے۔ اب یہ ہم پر لازم ہے کہ ہم اس قسم کے حالات میں کس چیز کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ صبر و شکر کا پیکر بنتے ہیں یا ناشکری کرکے منفی سوچ کے سمندر میں ڈوب کر خود اذیتی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟؟؟
ایسا صرف اور صرف اس وجہ سے ہوتا ہے جب ہم اللہ سے دور ہو جاتے ہیں۔ جب ہم اللہ کے بجائے دوسروں سے امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں۔
یا اچانک زندگی میں رونما ہونے والے حادثے سے ایسی حالت ہوجاتی ہے کہ سنبھلنا نہیں آتا، رب کی رضا میں راضی رہنا نہیں آتا۔ اس طرح کی کیفیات کسی اپنے خاص عزیز کی جدائی، نکاح و شادی کا ٹوٹ جانا، بیوگی، محبت و عشق میں ناکامی، معاشی و معاشرتی اور تعلیمی میدان میں ناکامی سے پیدا ہوتی ہے۔
ہم تقدیر میں لکھے ہوئے جو جب قبول نہیں کر رہے ہوتے تو ہم آس پاس موجود نعمتوں کے ہوتے ہوئے ناشکری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایک نعمت کے چھن جانے پر افسوس کرتے ہیں۔ مایوس ہوجاتے ہیں۔ ٹوٹ جاتے ہیں۔ اپنوں کی جدائی کا غم سہ رہے ہوتے ہیں جن سے جدا ہونے کا کبھی بھی نہ سوچا ہو۔۔۔ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟؟ یہی سوچ کر ہم آہستہ آہستہ ڈپریشن کا شکار بآسانی ہوجاتے ہیں۔
یا
جب خواتین شادی کے بعد اپنے مجازی خدا کی محبت میں اتنی گرفتار ہوجاتی ہے کہ وہ جو جن کی شادی سے پہلے تہجد قضا نہیں ہوتی تھی وہ شوہر سے اتنی زیادہ محبت کرنے لگتی ہے کہ اللہ کو بھول جاتی ہے پہلے نمازیں ادا کرنے میں سستی ہوتی ہے اور پھر قضا کے بعد نمازیں چھوٹ جاتی ہے۔
یا وہ لڑکے لڑکیاں جنہیں اللہ سے محبت کرنی چاہیے تھی وہ نامحرم کی محبت میں مبتلا ہو اپنا دل و دماغ کا سکون کھو بیٹھتے ہیں۔ روح تڑپتی بلکتی اذیت سہ رہی ہوتی ہے۔
اور یہ دنیا کا نظام ہے کہ جب انسان فطرت سے ہٹ کر چلتے ہیں تو ہماری روح جس سے ہمارے دنیا میں آنے سے پہلے ہی عہد لیا گیا تھا تو وہ بے قرار اور تڑپ کا شکار ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ دل کا سکون تو صرف ذکر اللہ سے ہی ممکن ہے۔
جب آپ اللہ سے ہی دور ہوجاتے ہیں تو آپ اپنے آپ سے بھی غافل ہو جاتے ہیں۔ خود سے محبت کرنا بھول جاتے ہیں۔ خود پر سے اعتماد کھو بیٹھتے ہیں۔ مایوسی کو اوڑھنا بچھونا بنالیتے ہیں۔ خود اذیتی میں مبتلا ہو کر سب کچھ بھول جاتے ہیں۔
ان سب کیفیات کا بآسانی شکار زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جو حساس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ پہلے ہی بے چینی کا شکار ہو تو وہ آرام سے خود کو مجرم سمجھ کر depressed ہوجاتے ہیں۔ خود کو ناکام تصور کرنے لگتے ہیں۔
ہر چھوٹی بات کو دل پر لے لیتے ہیں کہ فلاں نے ایسا کیوں کہا؟؟؟
اتنے قابل انسان ہو کر بھی ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کو لے کر سوچتے رہنے اور ہر مقصد سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ بے بس اور خود اذیتی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ جو اس اذیت سے گزرے ہیں وہی اس کیفیت کو جان سکتے ہیں کہ انسان زندہ لاش کی مانند ہوجاتا ہے۔
بہت سی لامتناہی سوچوں کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہو کر آپ فکر مند ہو کر اضطراب کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ہر چھوٹی بات کو رائی کا پہاڑ بنا کر اندر ہی اندر ٹوٹ سے جاتے ہیں۔ اپنی ہی ذات کے متعلق منفی سوچوں، توڑ پھوڑ کا شکار ہو کر خود اپنے ہی دشمن بن جائیں۔ آپ بیرونی حملوں سے تو بچ سکتے ہیں کسی محفوظ جگہ چلیں جائیں لیکن ان منفی سوچوں کا کیا کیا جائے جب یہ اتنی شدت سے حملہ آور ہوتی ہے اور آپ سے اندرونی طور پر بچنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
مثبت کے بجائے منفی سوچ ہمارے اوپر اتنی اثر انداز اور حاوی ہوجاتی ہے کہ ہم خود کے ہی دشمن بن جاتے ہیں۔ خود کو ڈی گریڈ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ احساس کمتری کا شکار ہو کر اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں پر شک کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا رہا سہا اعتماد بھی نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔
جو حادثہ زندگی میں پیش آیا اس کا قصوروار خود کو قرار دیکر خود کو معاف نہیں کرتے۔جو غلطی جانے انجانے میں ہوئی اس کا زمہ دار خود کو قرار دیکر اذیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ماضی کے اوراق ایک ایک کرکے ہمارے سامنے کھلی کتاب کی مانند کھلتے چلے جاتے ہیں اور ہم یہ سوچنے لگ جاتے ہیں کہ
“کاش ہم نے یہ غلطی نہ کی ہوتی”
“ہم اگر ایسا کرلیتے، یا ویسا کر لیتے تو پھر آج اس طرح نہ ہوتا”
ماضی تو بھولنے کے لیے ہیں۔ اسے دفن کردینا ہی ہمارے لیے بہتر ہے۔ صرف آج کے دن جو جینا ہی اصل زندگی ہے۔ مگر ہم ماضی کے پچھتاوے اور مستقبل کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ (جاری ہے)
ازقلم “مریم حسن”