اللہ کریم نے ہر انسان کو خوبصورت بنایا ہے اور کسی مقصد کے لیے پیدا کیا تو آپ کہاں سے کام کی نہیں ہیں!!؟؟؟؟
آپ بہت قیمتی ہیں۔ انمول ہے۔ بامقصد زندگی گزارنے والے، بس خود کو پہچانیں، اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر، انھیں پالش کریں۔ زندگی میں آگے بڑھیں؛
زندگی تو بہت خوبصورت ہے۔ بہت ہی زیادہ خوبصورت ہے۔ ہماری سوچ سے بھی بڑھ کر، اور یہ جو کیفیات ہے یہ سب نارمل ہے۔ سب انسانوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ حالات کبھی بھی ایک جیسے نہیں رہتے، ہمیشہ بدل جایا کرتے ہیں۔ رات کے بعد صبح ضرور طلوع ہوتی ہے۔ خزاں کے بعد بہار آیا کرتی ہے۔ ہر مشکل کے ساتھ آسانیاں۔ تو یہ خیال بھی ضرور تبدیل ہو جائے گا مثبت خیالات میں، ان شاءاللہ تعالیٰ۔
پھر آپ مسکرائیں گے۔ اور ان وقتوں کو بھول جائیں گے جن سے آپ ابھی گزر رہے ہیں۔ جن کیفیات نے آپ کو اداس کیا ہوا ہے کہ جس کی وجہ سے زندگی آپ کو بورنگ لگنے لگی ہے۔
دیکھیے؛
سوچ کا آنا غلط نہیں ہے۔ بلکہ غلط سوچ کا آنا غلط ہے۔ اپنے حوالے سے منفی سوچتے رہنا، احساس کمتری کا شکار ہو جانا کہ جیسے “میں ناکارہ ہوں”
“کسی کام کی نہیں ہوں”
یا پھر
“میں نہیں کر سکتی”
“میں زندگی میں آگے نہیں بڑھ سکتی”
“مجھ میں علم، خوبصورتی وغیرہ کی کمی ہے”
وغیرہ جیسے منفی خیالات کا آنا غلط ہے۔
یہ اتنی زیادہ سوچیں آتی کہاں سے ہیں؟؟؟
کیسے انسان اوورتھکنگ کا شکار ہو جاتا ہے!!!؟
پتہ ہے کیسے ہوتا ہے نا امید!!!؟؟
وہی پہلی منفی سوچ سے، جس کو ہم نے پکڑا نہیں ہوتا!!!! جسے ہم نے آگے بڑھنے دیا ہوتا ہے۔ اور پھر اس کے بعد ایک کت بعد ایک منفی سوچ پروان چڑھتی چلی جاتی ہے۔ اور نتیجہ یہ کہ ایک کے بعد ایک منفی خیالات کا نا رکنے والا سلسلہ نکل پڑتا ہے، جسے ہم اوور تھنکنگ کہتے ہیں۔ اور پھر یہ ہمیں اپنے گھر کے کاموں سے غافل کر دیتا ہے بلکہ اپنے آپ تک سے غافل کر دیتا ہے۔ اور پھر آپ نہ دین کے رہتے ہیں نا دنیاوی کاموں کے بلکہ مقاصد تک سے ہٹ جاتے ہیں۔
ایسے وقت میں کرنا کیا ہے!!!؟
اس وقت میں سب سے پہلے اللہ کریم سے مدد طلب کرنی ہے کہ اللہ کریم ہمیں ہر مشکل سے عافیت کے ساتھ نکال دیجئیے، ہماری زندگی میں آسانیاں پیدا فرما دیجئے۔ ہماری صلاحیتوں کو بامقصد مفید کاموں میں لگا دیجئی۔
اور پھر اپنے اوپر صبح و شام کے اذکار پڑھنا کبھی نہیں بھولے، علامہ ابن قیم فرماتے ہیں کہ “ہمیں کھانے پینے سے زیادہ صبحِ و شام کے اذکار پڑھنے کی ضرورت ہے”۔
اتنی اہمیت ہے اذکار پڑھنے کی، خصوصا معوذتین یعنی سورہ فلق اور سورہ الناس پڑھنا، جس میں ذکر ہے وساوس کے حوالے سے، جب ہم اذکار پڑھیں گے تو خود ہی ہماری شیاطین و جن و انس جو وسوسہ پیدا کر دیتے ہیں دل میں، ان سے حفاظت ہو جائے گی۔
پھر اس کے بعد درود شریف جسے روزانہ 1 ہزار مرتبہ لازمی پڑھنے کا معمول بنا لیجئے۔ مختصر درود شریف بھی ہے، اللہ کریم ہر غم سے نجات عطا فرما دیتے ہیں۔ دل میں موجود ساری خواہشات کو پورا کرتے ہیں۔ انسان کی زندگی میں خوشگوار ہو جاتی ہے۔ گناہ معاف ہوتے ہیں۔ زندگی سے تمام پریشانیاں دور ہوتی ہے۔ الغرض تمام مقاصد کے لیے کافی ہے۔
اور جب منفی سوچ آئے تو یونانی حکماء وغیرہ یہی علاج تجویز کیا کرتے تھے کہ اپنے آپ کو کاموں میں مصروف کر دیا جائے۔ باغبانی میں لگ جایا کریں۔ کیونکہ جب آپ مصروف رہتے ہیں تو بیکار کے خیالات آپ کو تنگ نہیں کرتے! یونانی حکماء نے اس کا علاج کام میں مصروف رہنا تجویز کیا۔ کیونکہ کتنے مریض ایسے تھے جنہیں خیالات پریشان کرتے تھے، جب انھیں کام وغیرہ میں مصروف کیا تو وہ ٹھیک ہو گئے۔ بیشک آپ درختوں، پودوں وغیرہ کا خیال کرنے لگ جائیں۔ بس مصروف کرنا ہے خود کو، کیوں کہ مصروفیات ہی اس کا واحد حل ہے۔
اور اس کے ساتھ ہی نیچر کے قریب ہونے کی کوشش کی جائے۔ زندگی کا حسن تو نیچرل لائف یعنی فطرتی زندگی گزارنے میں ہے۔ اور سکون بھی ان سب میں ملتا ہے۔ والدین اگر موجود ہے تو ان کو وقت دیا جائے۔ ان کو سنا جائے، ان کے پاس بیٹھا جائے، اور بچوں کے ساتھ کھیلا جائے۔ ان کے لاڈ اٹھائے جائے۔ ان کے ہونے سے تو گھروں میں رونق ہوتی ہے۔ اچھی اچھی بکس پڑھیں۔ سسٹرز، یا کسی مخلص دوست سے دل کا حال شئیر کیا جائے۔ جب آپ دل کی بات کسی سے کہ دیتے ہیں تو ہلکے پھلکے ہو جاتے ہیں۔ ذہن پرسکون ہو جاتا ہے۔ دل میں خوشی محسوس ہوتی ہے۔ اور رات کی نیند پوری کریں۔ وقت پر لازمی سوئیں ۔ صبح کی واک کو معمول کا حصہ بنایا جائے، چاہے آپ 15 منٹ کریں۔۔
ماضی کو بھول جائیں، کیوں کہ اگر ماضی کی سوچیں، غلطیاں یا گناہ یاد آتے ہیں تو پھر وہ انسان کو کہیں کا رہنے نہیں دیتے، ایک کے بعد ایک خیال آپ کو بری طرح جکڑ لیتے ہیں۔ آپ پریشان ہو جاتے ہیں۔ اور آپ ندامت کے احساس سے جاگزیں ہو جاتے ہیں۔ یا پھر مستقبل کی فکر، خوف انسان کو اتنا زیادہ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ تو بس حال میں موجود رہیں۔ موجودہ لمحے کو انجوائے کیجئے۔ اور حال کو جینے کی کوشش کریں۔ رشتوں کی قدر کریں۔ زندگی تو سوچ سے بھی بڑھ کر بہت حسین ہے۔
اور سب سے بڑھ کر، ہر چیز اعتدال کے ساتھ ہی اچھی لگتی ہیں۔ ہر معاملے میں میانہ روی اختیار کریں۔ چاہے کھانا ہو یا سونا یا پڑھنا یا کچھ بھی بس اپنی زندگی کا جائزہ لیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال کر رہے ہو، جیسے فب پر بلاوجہ سکرولنگ، یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھنا، یا ریلیز وغیرہ یا پھر واٹس ایپ سٹیٹس کیوں کہ کسی بھی چیز کی ذیادتی ہمیشہ نقصان کا باعث بنتی ہے۔ جب ہم سیل کا زیادہ استعمال کرتے ہیں تو ہمارے اندر چڑچڑا پن، اداسی، احساس کمتری، اعتماد میں کمی، بے چینی اینگزائٹی اور ڈپریشن جیسی علامت پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر بس اس میں اعتدال پیدا کریں۔ اعتدال کا طریقہ کار یہی ہے کہ متبادل راستہ اختیار کیا جائے، یعنی خود کو گھر کے کاموں اور مقصد کے حصول کے لیے لگایا جائے تو پھر سوشل میڈیا کا بلا وجہ استعمال خود ہی رک جائے گا۔
آخری بات کہ زندگی سے کبھی بھی مایوس نہ ہو۔ امام ترمذی قول ہے شاید کہ تنگی دور ہونے کی امید رکھنا بھی عبادت ہے۔ شیطان تو چاہتا ہے کہ ہم مایوس ہو جائیں۔ نا امید ہو جائیں جب کہ اللہ کہتے ہیں کہ مایوس نہیں ہونا، غم نہیں کرنا تو ہمیں اللہ سے ہمیشہ امید رکھنی ہے، اللہ کو خوش رکھنا ہے۔ زندگی کو لایعنی سوچوں میں ضائع نہیں کرنا، بلکہ جس مقصد کے لیے پیدا کیے گئے ان میں اپنے اوقات کو صرف کرنا ہے، ان شاءاللہ تعالیٰ۔
اللہ کریم آپ کو ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں رکھیں، آپ کے لیے کافی ہو جائیں، آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
مریم حسن