ڈپریشن سے سکون کی طرف سفر (حصہ دوم)

ڈپریشن سے سکون کی طرف سفر

“دوسرا اور آخری حصہ”

ڈپریشن کا آغاز وہاں سے ہوتا ہے جہاں سے آپ اپنے آپ کو ناکام تصور کرنے لگتے ہیں۔ آپ یہ سوچتے ہیں کہ میں ناقابل انسان ہوں۔ میں بہترین انسان نہیں ہوں۔ مجھ میں کچھ صلاحیت و اعتماد وغیرہ نہیں ہے۔ یہی سے آپ جب منفی سوچنے لگتے ہیں تو یقین کیجئے کہ یہی سے ہی آپ کے ڈپریشن کی شروعات ہوتی ہے۔
لیکن اگر آپ جس وقت ایسی سوچیں ذہن میں آرہی ہو یہ فجر میں اٹھ کر اپنے آپ کو یہ بتانا ہے کہ میں بہت بہترین و قابل اور باصلاحیت انسان ہوں۔ میں ہمیشہ مثبت سوچتا ہوں۔ وغیرہ وغیرہ کیوں کہ ہمارا لاشعور وہی کرتا ہے جو اسے بتایا جاتا ہے اگر آپ اسے یہ بات بار بار دہرائیں تو آپ کے شعور سے لاشعور میں پختہ ہوکر بیٹھ جائیں گی اور پھر آپ مثبت سوچ کے تحت جلد از جلد ٹھیک ہوتے چلے جائیں گے۔

کنٹرول ٹاور کی طرح آپ اپنے دماغ میں تصوراتی آنکھ کو نصب کر لیجئے۔ جیسے کوئی منفی سوچ آئے فوراً آپ ہوشیار ہو جائیں۔ اور منفی سوچ کو وہی جھٹک کر مثبت سوچنا شروع کردیجیے۔ خود کو بتائیے کہ
“میں مثبت سوچتی ہوں”
“میں بہت باصلاحیت اور قابل ہوں” وغیرہ وغیرہ۔
اپنی صبح کا آغاز ہی مثبت سوچ سے کیجئے کہ آج کے دن میں مثبت سوچوں گا۔ آج کے دن کو بہترین بناؤں گا۔

ڈپریشن

جب آپ دوسروں کے رویے کا تعین کرکے اپنا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ اگر فلاں نے ہمارے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا تو ہم بھی ایسا ہی کریں گے اگر اچھا کیا تو ہم بھی اچھا رویہ اختیار کریں گے اگر برا کیا تو ہم بھی برا رویہ اختیار کریں گے۔ اس طرح ہم بے سکونی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ بددل ہو کر دوسرے کے خلوصِ کو شک ہی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں۔ ذہنی پراگندگی، ذہنی انتشار اور خود اذیتی میں مبتلا ہو کر مخلص کے خلوص کو بھی دشمنی سمجھنے لگتے ہیں۔ اگر کسی دوسرے نے بالفرض آپ کے ساتھ برا بھلا کہ دیا، تو گھبرائیے مت، ہمت کیجئے اسے معاف کر دیجئے۔ کیونکہ معاف کردینے سے خوشیاں ملتی ہے۔ معاف کرکے ہی ہم خوش رہتے ہیں۔
آپ کے ساتھ جو ہوا وہ اللہ کے حکم سے ہوا کیونکہ اس کائنات میں ایک پتہ بھی رب کی رضا کے مطابق نہیں ہل سکتا، آپ کی اس میں بہتری تھی۔ آپ نے اپنی طرف سے ساری کوششیں کی مگر آپ کو وہ سب نہیں ملا جس کی آپ آرزو رکھتے، اسی لیے نہیں ملا کیونکہ وہ آپ کے لیے بہتر نہیں تھا۔ جس کو ہم بہتر سمجھ رہے ہوتے وہ ہمارے لیے بہترین نہیں ہوتا، اللہ ہی سب جانتے ہیں کہ ہمارے لیے بہترین کیا ہے اور ہمیں یہ سب بعد میں سمجھ آتا ہے۔

ماضی میں جو ہوا سو ہوا اسے بھول جائیے۔ حال کو جئیے اور غم نہ کیجئے کیونکہ مومن کے لیے غمگین رہنا اس کے شایان شان نہیں۔ آپ نے ہمت اور جرات سے اپنی منزل کو حاصل کرنا ھے، مومن کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ اور اعصابی جنگ میں ہمیشہ فتح اُسی کی ہوتی ہے جِس نے اعصاب شِکن لمحات و کیفیات میں بھی “صبر اور صلٰوۃ” سے کام لیا.
اور اِن لمحات میں یہی حُکم ہے “وَاستَعینُوا بِاالصبرِ و الصلٰوۃ …. القرآن۔ آپ نے ان کیفیات سے نکلنے رب کے آگے دامن پھیلانا ہے۔ اسی سے مانگنا ہے۔ کیوں کہ وہی ان سب سے نجات دینے والا ہے۔ وہی عافیت دینے والا ہے وہی معاف کرنے والا ہے۔ وہ تو اپنے بندوں پر ماؤں سے بھی ستر گنا زیادہ محبت کرنے والا ہے۔ وہ اپنے بندوں کو تڑپتا و بلکتا کیسے دیکھ سکتا ہے۔ وہ تو شے رگ سے زیادہ قریب ہے۔ آپ جب جب اس کیفیات میں مبتلا ہو کسی طرح ہمت کرکے رب کے سامنے کھڑے ہوجائیے۔ دو رکعت نفل نماز پڑھ کر اللہ کے سامنے اپنی بے بسی و عاجزی کا اظہار کیجئے۔ کہ
اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ کا ورد کرتے رہنا ہے۔ کہ اے اللہ!
ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔
اسی سے مدد مانگنی ہے۔ اسے وہ سب بتائیے جو آپ سہ رہے ہیں۔ جیسے ایک دوست کو دل کا حال سنایا جاتا ہے اسی طرح اللہ کے سامنے دل کے سارے راز کھول کر رکھ دیجئے۔
دیکھ لیجئے گا کہ آپ کے مضطرب دل کو قرار ملنا شروع ہو جائے گا۔ آپ کی روح کو سکون ملتا جائے گا۔ آپ عافیت میں آجائیں گے۔ روح پر لگے زخم پر مرہم لگنے شروع ہوجائیں گے۔

ڈپریشن

 

جب ہماری یہ کیفیت ہوتی ہے تو ہم خوش رہنے کے لیے وقتی بہلاوے کے طور پر ٹی وی، وی سی آر، فلمیں اور ڈرامے سے دل بہلانے لگتے ہیں جبکہ یہ سب مصنوعی سہارے، خرافات اور وقتی بہلاوے ہیں۔ ہم وقتی طور پر تو یہ سوچ کر بہل جاتے ہیں کہ خوشی محسوس ہوتی ہے جبکہ خوشی اور سکون تو نام ہی اندر کی چیز ہے۔ وہ باہر سے نہیں ملتی بلکہ یقین جانیے وہ تو صرف اور صرف اللہ کی یاد اور اس کی فرمانبرداری میں ہے۔ دوسرا کام آپ نے یہ کرنا ہے کہ روح کو دوا دینی ہے۔ جیسے ہم جب بیمار ہوتے ہیں تو دوائی پونسٹان، پیناڈول وغیرہ لیکر ٹھیک ہوتے ہیں اسی طرح جب روح بیمار ہو تو اسے سکون بھی صرف اور صرف ذکر اللہ سے ملتا ہے۔
قرآن مجید میں ہے کہ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب کہ دلوں کا سکون صرف اللہ کے ذکر سے ہے۔
آپ آزمائش سے نکلنے کے لیے دلوں کو سکون اور روح کو قرار دینے کے لیے استغفار وغیرہ کا ورد کثرت سے شروع کر دیجئے۔ یقین کیجئے کہ آپ ان سب آزمائشوں سے آرام سے نکلتے جائیں گے۔ اور ایسے ہوجائیں گے کہ جیسے آپ کبھی بیمار ہی نہیں تھے۔ جیسے ایک بیمار اچانک صحت مند ہوجاتا ہے۔ اسی طرح آپ کی روح بھی پہلے سے بڑھ کر پرسکون ہو جائے گی۔

خود کو کسی بامقصد سرگرمی میں مصروف کر لیجئے۔ پلاننگ کیجئے۔ روزانہ تھوڑا تھوڑا اور مستقل مزاجی کے ساتھ اسے حاصل کرنے کے لیے کوششیں شروع کر دیجئے۔ جو آپ بآسانی کرسکتے ہیں صرف وہی کیجئے۔ یہ نہ ہو آپ خود پر زیادہ بوجھ لادے اور پھر تھک ہار کر کچھ بھی نہ کرسکیں۔
آپ خود بھی خوش رہئیے اور دوسروں کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کیجئے۔ یہ تب ہوگا جب آپ خود خوش رہیں گے۔ اور خود کو خوش رکھنا تبھی ممکن ہوگا جب آپ اپنے آپ سے محبت کریں گے۔ آسانی اور اعتدال سے زندگی جیئں گے۔ کیوں کہ بہت زیادہ خود کو مصروف رکھ کر اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں اور ان کیفیات کا شکار ہو کر سب کچھ چھوڑ دیتے ہیں۔ اسی لیے آسانی کو زندگی کا حصہ بنائیے۔ تاکہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی خوش رکھ سکیں۔

تیسرا اور آخری حل ان سب سے نکلنے کے لیے کہ
حقیقت کو قبول کرکے جینا ہے۔ اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لانا ہے۔ تقدیر کا ہر فیصلہ غالب ہو کر ہی رہتا ہے۔ کیوں نہ ہم اللہ کے ہر فیصلے پر سر جھکا لیں اس کی رضا میں راضی رہے۔ صبر و تحمل اور شکر کا پیکر بنے رہے۔
اپنے پاس موجود نعمتوں پر شکر ادا کیجئے۔ جن کو پانے کے لیے دوسرے ترستے ہیں۔ اور ان سب نعمتوں کے آپ مالک ہیں۔ شکر کیجئے تاکہ آپ کو مزید نوازا جائے۔ جو ہوا اللہ کی طرف سے ہوا اسے رب کی رضا سمجھ کر صبر کیجئے۔
مایوسی کفر ہے۔
اچھی امید رکھیے۔ صبر سے کام لیجئے کیونکہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ آپ اتنی آزمائشوں سے گزرے یا گزر رہے ہیں، آپ پھل حاصلِ کرنے والے ہیں۔ یہ تو دنیا کے امتحانات ہیں اور انسان کو دنیا میں بھیجا ہی اس لیے بھیجا گیا ہے کہ اسے آزمایا جائے۔ آپ کے یہ امتحانات ہیں، جس میں آپ نے اپنی سی کوشش کرکے کامیاب ہونا ہے، رب کو راضی کرنا ہے۔
جس طرح امتحانات کے بعد نتائج کا اعلان ہوتا ہے پھر انعامات سے بھی نوازا جاتا ہے۔ اسی طرح آپ کو دنیا میں بھی انعامات سے نوازا جائے گا اور آخرت کا انعام تو الگ ہی ہوگا۔ مومن کو ایک کانٹا چبھنے پر بھی گناہ مٹا کر نیکی لکھ دی جاتی ہے۔ ان سب کیفیات سے آپ جو گزر رہے ہیں اس پر بھی اجر کے ساتھ ساتھ انعامات سے نوازے جائیں گے کہ اور آپ کا رب آپ کو اتنا دے گا کہ آپ حیران اور خوش ہو جائیں گے، ان شاءاللہ۔

یقین رکھیے؛
کہ آپ پر انعامات کی بارشیں برسنے والی ہیں۔ آپ کے سب مسائل حل ہونے والے ہیں۔ آپ کو تو وہ سب ملنے والا ہے جس کی آپ چاہت رکھتے ہیں۔ وہ سب ملے گا جس کے آپ خواب دیکھتے ہیں۔
آزمائش کا وقت مختصر ہے اور پھر یہ رات کی سیاہی سے بدل کر صبح صادق کی سفیدی میں جلد تبدیل ہو جائے گا۔ مشکل اور آسانی لازم و ملزوم ہیں۔ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ آپ پر آئی آزمائش کے بعد آسانی ضرور آئے گی۔ آپ عافیت میں آنے والے ہیں۔ آپ کے زخم بھرنے والے ہیں۔ آپ کی روح کو سکون ملنے والا ہے۔

آپ بہترین ہیں اور آپ کو بہترین نعم البدل عطا ہونے والا ہیں۔ آپ انمول ہیں۔ قیمتی و قابل اور باصلاحیت انسان ہیں۔ آپ صابر و شاکر اور رب کی رضا میں رہنے والے ہیں اور ایسوں کو تو رب خود اتنے انعامات سے نوازے گا، والسوف یعطیک ربک فترضی کہ آپ کا رب آپ کو اتنا دے گا کہ آپ خوش ہو جائیں گے، ان شاءاللہ۔ آپ کے سب زخم بھر جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ سب کو عافیت کے ساتھ خوش و آباد رکھیں آمین ثم آمین 🌹۔

ازقلم “مریم حسن”

ڈپریشن

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس

Advertisment

مشہور پوسٹ