اگر آپ کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کا وژن ضرور کلئیر ہونا چاہیے۔
کیوں کہ جب وژن صاف اور واضح نہیں ہوگا تو پھر آپ کٹی ہوئی پتنگ کی مانند گرتے چلے جائیں گے۔ اور آپ کو معلوم ہی نہیں ہوگا کہ جانا کہاں ہے۔
جو لوگ اپنا وژن یعنی مستقبل کی وہ تصویر، جو ذہن میں رکھ کر ہدف متعین کرتے ہیں۔ اور پھر عمل کے لیے جت جاتے ہیں۔ وہی کامیاب افراد کی لسٹ میں داخل ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ جب آپ کو معلوم ہی نہیں ہوگا کہ جانا کہاں ہے، تو پھر آپ کچھ نہیں کر سکیں گے۔ جب کسی بس میں سفر کیا جاتا ہے، تو آپ جس مقام پر پہنچنا چاہتے ہیں، اسی جگہ جانے والی بس سوار ہوتے ہیں اور۔ بالآخر آپ اپنی منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔
جانتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے!!؟؟
ایسا اسی لیے ہوتا ہے کیونکہ انھوں نے اپنا مقصد متعین کیا ہوتا ہے۔ وقت مقرر کرتے ہیں روزانہ، اور ان کے سامنے مستقبل کی وہ تصویر واضح ہوتی ہے جو وہ بننا چاہتے ہیں۔ پھر جب بہترین پلاننگ کرکے روزانہ مستقل مزاجی سے عمل پیرا ہوا جاتا ہے، تو لازمی منزل انھیں ملا کرتی ہے۔
اگر آپ بھی خواب کو حقیقت کی صورت میں پورا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں تو آج ہی طے کر لیں، کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں!!؟
کیوں پہنچنا چاہتے ہیں!!؟؟
اور کس مقام پر پہنچنا چاہتے ہیں! آپ کی زندگی کا مقصد کیا ہے!؟؟
ذہن میں تصویر مستقبل کی رکھ کر ہدف متعین کریں۔
اور بلند خواب دیکھنے کی کوشش کریں؛
کیوں کہ خواب حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں۔ خواب ضرور پورے ہوتے ہیں۔ اور خواب کا آغاز اک سوچ یا فکر سے ہی ہوتا ہے۔
اور چھوٹے چھوٹے خواب نہ دیکھئے؛
وہ تو عام انسان بھی دیکھتے ہیں۔ اگر خواب کو تعبیر کی صورت دیکھنا چاہتے ہیں، تو بلند خواب آپ کا ہدف ہونا چاہیے۔ حضرت عقبہ بن نافع رضی اللہ عنہ نے وژن بنایا کہ پوری دنیا میں انھوں نے دین کا پیغام پہنچانا ہے۔ چنانچہ وہ مدینے کے گلیوں سے نکلے، اور چلتے رہے، یہاں تک کہ مراکش پہنچ گئے۔ وہ پہنچ کر زمین کے ختم ہوگئی۔ اگے سمندر شروع آگیا۔
حضرت عقبہ بن نافع نے بحر اوقیانوس میں اپنے گھوڑے کے اگلے دونوں قدم ڈال کر کہا تھا:
“اے اللہ! تیری زمین یہاں ختم ہوگئی ہے۔ آگے سمندر ہی سمندر ہے۔ اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ تیری مخلوق اس سمندر کے اس پار بھی رہتی ہے تو میں ادھر جانے کے لیے بھی تیار ہوں۔ اے اللہ تو گواور نامیں نے تیرا پیغام اپنی وسعت کے مطابق دنیا کے اس کونے تک پہنچا دیا ہے۔”
جتنے بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے وہ سب وژنری تھے۔ ان کی سوچ بلند تھی۔ ان کے خواب اونچے تھے۔ انھوں نے پوری دنیا میں دین کا پیغام پہنچانے کا مشن بنایا اور پھر نکل گئے۔ اور آج ان کی قبریں دنیا کے مختلف ممالک اور علاقوں میں ملتی ہیں۔
آپ زیادہ دور نہ جائیں؛
اپنے ارد گرد، بلکہ اپنے ملک کے اونچے عہدوں پر فائز افراد کا مشاہدہ کریں، انھیں دیکھیں؛
تو معلوم ہوگا کہ وہ سب بھی ہمارے جیسے ہی انسان ہیں۔ مگر ان میں اور ہم میں فرق صرف اور صرف بلند و بالا خواب کا ہی ہے۔ انھوں نے خواب دیکھا، زندگی کا مقصد متعین کیا اور آج اس مقام تک پہنچ گئے جہاں پہنچنا چاہتے تھے۔ بس نیت آپ کی ان سب میں خیر والی ہونی چاہیے۔ اللہ کی رضا کا حصول مقصود ہو۔
المختصر! اگر آپ واقعتا دنیا و آخرت میں کامیابی سے ہمکنار ہونا چاہتے ہیں۔ اپنے خوابوں کو حقیقت کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں تو بلند خواب دیکھیں۔ ابھی سے ہی اپنا ہدف واضح کریں۔ مقصد متعین کریں۔ اور پھر اس کو حاصل کرنے کے لیے جت جائیں۔ وقت مقرر کرکے، روزانہ مستقل مزاجی سے اس پر کام کریں۔ آپ جس مقام پر بھی جانا چاہتے ہیں، جب وہ آپ کے سامنے واضح ہوگا تو آپ ضرور اس منزل پر پہنچ جائیں گے۔ کیوں کہ وژن ہی کامیابی کی کلید ہے۔ اور کامیابی خواب دیکھنے والوں کو ضرور ملا کرتی ہے۔ تو بس آپ خواب دیکھیں؛ اور اسے تعبیر کی صورت میں پانے کے لیے جت جائے۔ خواب سے تعبیر تک کا سفر آپ کا ضرور طے ہوگا۔
مریم حسن