“اپنے خوف کو ختم کریں مگر کیسے!!؟؟؟”

“اپنے خوف کو ختم کریں مگر کیسے!!؟؟؟”

اپنے خوف کو ختم کریں۔ یہ خوف ہی ہوتا ہے جو انسان کو آگے بڑھنے روک دیتا ہے۔ منفی سوچ اس حد تک پیدا ہو جاتی ہے کہ آپ کو لگنے لگتا ہے کہ کچھ نہیں کر سکتے۔
 پھر یہ سوچ ذہن کو اس حد تک جکڑ لیتی ہے کہ آپ کے سوچنے سمجھنے اور کچھ بھی کر سکنے کی صلاحیت جامد سی ہو جاتی ہے۔ جب ذہن جکڑا ہوا ہو تو پھر جسمانی کیفیت بھی ٹھیک اسی طرح ہو جاتی ہے۔ بس کسی طرح آپ چل رہے ہوتے ہیں۔ بے بسی سی چھائی ہوتی ہے۔ آپ کا دل کرتا ہے کہ کوئی کام نہ کریں۔
بس جو کرنے کا سوچا ہوتا ہے یا جو مقاصد ہوتے ہیں اس کا سوچ کر ہی بے چینی/اینگزائٹی سی ہونے لگتی ہے۔ پھر آپ ہمت ہارنے لگ جاتے ہیں۔ چڑچڑاپن غالب آ جاتا ہے۔ اپنی ذمہ داریاں ٹھیک سے ادا نہیں کر پارہے ہوتے۔ کیوں کہ آپ کے زہن میں اسی کام کے حوالے سے ٹینشن سی ہوتی ہے جو آپ کر نہیں پا رہے ہوتے۔ لیکن کیا یہی سب مسئلے کا حل ہے!!!؟
بالکل نہیں؛
یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔
مسئلے کا حل پتہ ہے کیا ہے/!!!؟
وہ یہی ہے کہ آپ حل تلاش کیجئے؛
یہ جاننے کی کوشش کیجئے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے!!؟
پھر اس خوف کا سامنا ڈٹ کر کر لیجئے جو آپ کے لیے مسائل پیدا کر رہا ہے۔
جہاں نہیں کرنے کی وجہ سے گھبراہٹ محسوس ہو رہی ہے۔ ہمت ختم ہوگئی۔ دل نہیں کر رہا۔ اگلے دن پر ٹال دینے کا دل کر رہا ہے تو وہی اگلے دن کی بھی تو یہی صورت حال ہوں گی نا!!؟؟
جو کام آج نہیں ہوسکا وہ کل کیسے ہو سکتا ہے!!؟
آج ہی کرنے کا وقت ہے۔ آج ہی عمل کا دن ہے۔ جب آج کر لیں گے تو کل بھی کر سکیں گے۔
تو کرنا کیا ہے!!؟!؟
کیسے اپنے گول کو اچیو کرنا ہے؟
کیسے اپنے خوابوں کو تعبیر کی صورت پورا ہوتا دیکھنا ہے!؟؟
کیسے روزانہ مستقل مزاجی دکھانی ہے!؟؟
کیسے خوف کو ختم کرکے خود اعتمادی کی دولت سے مالا مال ہونا ہے!!؟؟
کیسے اس کیفیت کو ختم کرنا ہے جو آپ کو بے بس کی ہوئی ہے!؟؟
کیسے ریلیکس ہونا ہے!!!؟؟
تو سب سے آسان طریقہ کار یہی ہے کہ اللہ کریم سے دعا کہ اللہ کریم آپ میری مدد کیجئے۔ اس کیفیت سے عافیت کے ساتھ نکال دیجئے۔ میری زندگی میں آسانیاں پیدا فرما دیجئے۔ دنیا و آخرت کی کامیابیوں سے عافیت کے ساتھ ہم کنار کر دیجئے۔
 میرے لیے اتنی آسانیاں پیدا فر دیجئے کہ میں عافیت کے ساتھ مکمل کر سکوں۔ جب اللہ سے مدد مانگی جاتی یے۔ تو اس کی مدد اپنے بندوں کے لیے ضرور آتی ہے۔ جب اللہ سے دعا کرلی تو بے فکر ہو جائیں۔ آپ کر لیں گے، ان شاءاللہ۔
اب جہاں نہ کرنے کا دل کر رہا ہے وہی بالکل نہ کرنے سے بہتر ہے کہ آپ اپنے آپ کو مائل کیجئے۔ کہ بس تھوڑا سا کروں گا۔ چھوٹا سا قدم اٹھاؤں گا۔ جتنا کر سکتا ہوں اتنا کرنے کی کوشش کروں گا۔ تو چھوٹے چھوٹے حصوں میں اپنے ورک کو تقسیم کیجئے۔
زیادہ کرنے کے بجائے خود کو تھوڑے پر راضی کر لیجئے۔ کیوں کہ اللہ کو بھی وہ کام پسند ہے جو تھوڑا کیا جائے مگر روزانہ کیا جائے۔ تو جتنا کر سکتے ہیں وہ آج کر لیجئے۔ پھر جب انسان کوشش کرتا ہے تو اللہ اس تھوڑے میں بھی برکت ڈال دیتے ہیں۔ اتنی ہمت دے دیتے ہیں کہ انسان زیادہ کرنے لگ جاتا ہے۔
جب آپ مستقل مزاجی سے تھوڑا کر لیں گے۔ چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرکے ورک مکمل کریں گے تو سمجھیے؛ آپ اپنے گول کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ روزانہ 1٪ فیصد بڑھیں بس۔۔ پھر آپ کا جہاں نہیں کر پارہے تھے۔ وہی آپ نے آج تھوڑا کر لیا ہوگا۔ آپ کو خوشی محسوس ہوں گی۔ آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہوگا۔
اور سب سے بڑھ کر دیکھئے گا؛
کہ آپ کا وہ سارا خوف زائل ہو جائے گا جس نے آپ کو ڈرایا ہوا تھا۔ وہ ساری انگزائٹی خود اعتمادی سے بدل جائے گی جس کی وجہ سے آپ بے چین تھے۔ جسم ہلکا پھلکا محسوس ہوگا۔ اور پھر بے بسی کی سب کیفیات ختم ہوگی۔ جب ذہن پر سے یہ بوجھ جو چھایا ہوا تھا۔ ہٹے گا تو آپ پرسکون ہو جائیں گے۔ پہلے سے بڑھ کر ایکٹو ہو جائیں گے۔ سب سے بڑھ کر آپ مزید ذوق و شوق سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے لگیں گے۔ اپنے گول کو اچیو کرنے کی ہمت ہو جائے گی۔
بس ایک بات ضرور یاد رکھیے گا کہ ہمت نہ ہارنی۔ تھوڑا کرنا ہے مگر روزانہ کرتے رہنا ہے۔ آپ کر سکتے ہیں اور کر لیں گے، ان شاءاللہ۔
مریم حسن

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس

Advertisment

مشہور پوسٹ